Saturday, November 12, 2011

A Letter to an Enlightened Moderate

محترم سر زبیر ، السلام علیکم



لگتا ہے کہ آپ کی ناراضی کچھ زیادہ گہری ہو گئی ہے. آپ جس سر زمین پر آج کل رہتے ہیں اور اس کی روایات و اقدار اور وہاں کے ماحول سے بڑی حد تک متاثر بھی ہیں، وہاں کی تو سب سے بڑی خوبی یہ بتائی جاتی ہے که جذباتیت سے زیادہ وہاں دلیل کا چلن ہے. دلیل غلط بھی ہو سکتی ہے اور درست بھی. لیکن اپنے موقف کے لئے دلیل کے ساتھ غیر جذباتی انداز میں بات کرنا ان لوگوں کا خاص وصف بتایا جاتا ہے.


ہمارا معاملہ کچھ عجیب ہے که ہم مقدمہ پہلے قائم کرتے ہیں، اپنے تعصبات ، اپنی نفرتوں اور اپنی چٹانوں سے سخت ہٹ کی اس مقدمے کے گردا گرد دیوار کھڑی کرتے ہیں تا که معقول سے معقول دلائل بھی اس پر اثر نہ کر سکیں. اس اہتمام کے باوجود بھی اگر دیواروں کی اینٹیں کچی ہونے کی وجہ سے الگ ہونے لگیں تو آخری سہارا ناراضی اور اس سے بڑھ کر قطع تعلقی کا لیتے ہیں. ہمارے دین داروں میں بھی یہ تنگ نظری ہے اور ہمارے 'مسٹر ' بھی اس میں پیچھے نہیں ہیں.


بات یہ ہے که کچھ وجوہ سے آپ دینی قوتوں کے بارے میں کچھ زیادہ حساس ہو گے ہیں. باقی لوگوں کے سات خون بھی معافی کے قابل سمجھتے ہیں لیکن 'وہ ' بیچارے 'آہ' بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام . ان کی خامیوں سے مجھے کبھی انکار نہیں رہا ہے. ہمارے ہاں سیکولر ، مغرب زدہ اور دین بے زار عناصر ہمیشہ اسی لئے غالب رہتے ہیں که ہماری دینی قوتیں اپنی نادانیوں، اپنی کھلی حماقتوں، فرقہ بندی، تنگ نظری اور باہمی کشمکش کی وجہ سے پھٹی اور منقسم رہتی ہیں. ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنا اور ایک دوسرے کو گرانا ان کا معمول ہے. بہت سی دوسری اخلاقی خرابیاں بھی ان میں در آئ ہیں. آپ طویل عرصے سے ان کی حماقتوں اور اخلاقی خامیوں اور حقیقی فرائض اور صحیح راہ سے انحراف کی بات کرتے ہیں ،یہ باتیں بیس بائیس سال پہلے میں اپنی اڑھائی تین سو صفحے کی کتاب میں لکھ چکا ہوں.


لیکن میں ماڈرن ، مغرب زدہ ، جدید تعلیمی اداروں کی پیداوار نام نہاد روشن خیال اور آزاد فکر و اخلاقی لحاظ سے بے مہار طبقوں کا بھی سخت ناقد ہوں، ہمارے ہاں کرپشن کی لت میں یہی طبقہ سب سے بڑھا ہوا ہے. سیاست و اقتدار کی باگیں ہمیشہ اسی طبقے کے ہاتھ میں رہی ہیں اور ملک کو تباہی کے دھانے پر فوجی جنتا، بیوکریسی، سیاسی جماعتوں ، کاروباری حلقوں اور کلیدی مناصب پر براجمان اسی طبقے ںے پہنچایا. مولوی بھی حرام خور ہوں گے لیکن ان کی حرام خوری سیکڑوں ہزاروں میں ہوتی ہے. لیکن اس ماڈرن طبقے کی حرام خوری کروڑوں اربوں میں ہوتی ہے. یہ ملک کے سارے وسائل چاٹ چکا ہے. یہ طبقہ ہمارے جدید تعلیمی اداروں کی فصل ہے. آپ اس طبقے سے کچھ زیادہ ہمدردی رکھنے کی وجہ سے اسے خصوصی نمبروں سے پاس کرنے کے قائل ہیں. عدل اس کائنات کی سب سے بڑی حقیقت ہے. عدل کا دامن تھام لیا جاۓ تو انسان بہت سی الجھنوں اور معاشرے بہت سے مسائل سے نجات پا لیں.


دینداروں کے بارے میں کہیں سے بھی ان کی کوئی گھناؤنی حرکت آپ کے علم میں آ جاتی ہے آپ اسے
  پھیلانا ضروری سمجھتے ہیں. میرا اختلاف یہ ہوتا ہے که آپ ماڈرن طبقے کو بالکل بھول جاتے ہیں . اس طبقے کے بارے میں آپ کی نفسیات میں دور تک اںدر بیٹھی ہوئی ہمدردی کبھی سوتی نہیں ہے . آپ لگ بھگ دس برس تک بدترین آمر پرویز مشرف کے حامی رہے ہیں. ابھی جس طرح کی کہانی کو پیش کر کے آپ دین داروں کی بد ذاتی کو نمایاں کر رہے تھے اور میں ںے بد ذاتی کی ان حرکتوں کی مذمت کے ساتھ ، ماڈرن طبقے، کے پروفیسروں، ڈاکٹروں اور وکیلوں کی ایسی ہی شنیع حرکات کی طرف توجہ دلائی تو آپ ناراض ہو گے ، عید مبارک تک بھی کہنا گوارا نہیں کیا. میں آپ سے گزارش کرتا رہا ہوں کہ آپ ایک دانشور ہیں، ادب آشنا ہیں، معروف جامعات اور تعلیمی اداروں میں آپ ںے خدمات انجام دی ہیں. آپ کی نظر میں وسعت اور سوچ میں توازن ہونا چاہیے. دلیل پڑھے لکھے آدمی کا سب سے بڑا ہتھیار ہونا چاہیے. ہر چیز ، ہر معاملے ، ہر موقف اور ہر راۓ میں عدل اور دلیل کو بروۓ کار لانا چاہیے. پہلے سے قائم تعصبات پر ڈھونڈ ڈھونڈ کر گندی مثالوں کے ردے چڑھانے کے بجاۓ تعصبات سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہیے. مجھے امید ہے که آپ میری ان معروضات پر غور فرمائیں گے.


خاکسار منیر احمد خلیلی

No comments: