روفیسر محسن عثمانی ندوی
علماء اور مفکرین کا سکوت مرگ :اللہ رے سنا ٹا آواز نہیں آتی
عصر حاضر میں جن شخصیتوں نے اپنی علمی دینی اور فکری خدمات کا گہرا نقش عالم اسلام پر قائم کیا ہے ان میں علامہ اقبال مصر کے حسن البنا ، پاکستان کے مولانا مودودی ،ہندوستان کے مولانا ابو الحسن علی ندوی،تیونس کے راشد الغنوشی ایران کے امام خمینی کے نام لئے جاتے ہیں ۔موخر الذکر نے ایران میں جو انقلاب برپا کیا تھا جو اگرچہ ایک بے دین مغرب زدہ استبدادی حکومت کے خلاف بہتراسلامی انقلاب تھا لیکن اس پر شیعیت کی مسلکی چھاپ ناقابل قبول ہونے کی حد تک گہری تھی۔اس حقیقت کے لئے یہ ثبوت کافی ہے کہ جب مصر میں اخوان نے انقلاب برپا کیا تو ایرانیوں نے اسے اسلامی انقلاب قرار دیا اور اس کی پذیرائی کی اور جب یہی اخوانی شام میں انقلاب بردوش بن کر بشار کے مقابلہ میںآئے تو ایران کی ساری حمایت دامے درمے قدمے سخنے فوج اور ہتھیار کے ساتھ بشار الاسد کیساتھ ہوگئی کیونکہ بشار سے شیعیت کا رشتہ تھا اگر چہ کہ دور کا تھا یعنی بشار علوی شیعہ تھا اور علویوں کو ایرانی گمراہ سمجھتے ہیں تاہم وہ شیعہ تھا اس لئے اہل سنت اور اخوان کے مقابلہ میں وہ زیادہ قابل قبول تھا ۔ایران کی اس غلط پالیسی کی وجہ سے عالم اسلام کا ایران پر اعتماد باقی نہیں رہا ۔ ایرانی لابی کے ہندوستانی صحافی بھی افسوسناک حد تک ایران کے ہم سفر اور ہم صفیر رہے۔اور اس چیز نے اہل تشیع اور اہل سنت کے درمیان وہ خلیج پیدا کردی ہے جسے پاٹنا آسان نہیں ہے ۔
بر صغیر میں فکر اسلامی کے آسمان پرمولانا مودودی اورمولانا ابو الحسن علی ندوی دو روشن ستاروں کے نام ہیں ان دونوں کے درمیان فکری مماثلتیں ہیں ، دونوں عالم اسلام کی دینی تحریک الاخوان المسلمون کے مداح اور قدرشناس ہیں،دونوں اسلام کو ایک مکمل نظام حیات سمجھنے والے ہیں۔ اس فرق کے ساتھ کہ مولانا مودودی شریعت کی ظاہری شکل اور نظام پرزیادہ فوکس ڈالتے ہیں اور مولانا علی میاں ایمانی اور داخلی کیفیات پر زیادہ زور دیتے ہیں۔مولانا مودودی کے مقابلہ میں مولانا علی میاں کا قلم محتاط بہت ہے ان کی سیکڑوں اردو عربی تصنیفات میں ایک جملہ بھی کہیں ایسا نہیں ملتا جو علماء کے لئے وجہ اعتراض ہو، خاص طور پر تاریخ میں اختلافات کے خارزار سے ان کا قلم اس طرح گذرتا ہے جیسے کوئی پل صراط پر سے کامیاب گذرے مولانا علی میاں کا یہ کمال دیکھنا ہو تو اسے المرتضی پڑھنی چا ہئے جو مشاجرات صحابہ کا عہد ہے اور جس میں صحابہ کے اختلافات کا بیان ہے یا حیات عبد الحی پڑھنی چاہئے جس میں شبلی اور مولانا عبد الحی کے اختلافات پر پورا باب موجود ہے اور مولانا عبد الحی مولانا علی میاں کے والدہیں یہاں مولانا علی میاں کے قلم کی خصوصیت آشکار ہوتی ہے۔ اس وقت عالم عربی میں عرب بہاریہ کے زیر عنوان جو انقلابات آئے ان کے پس پردہ مولانا مودودی اور مولانا علی میاں کے فکر کے بھی سائے ہیں اور شیخ علامہ یوسف القرضاوی نے تو یہاں کہہ دیا ہے کہ جہاں جہاں الربیع العربی کے تحت جو انقلاب آیااس کے پس پردہ مولانا علی میاں کی مفکرانہ کتاب ماذا خسر العالم بانحطاط ا لمسلمین اور اس طرح کی کچھ اور کتابوں کاہاتھ ہے ۔ہر جگہ اسلامی ذہن وفکر کے لوگ تھے جنہوں نے عرب ملکوں میں اپوزیشن کا رول ادا کیا تھا اور وہ آگے آگے تھے۔یہ بہت بڑی حقیقت ہے جسے لوگ کم جانتے ہیں ۔ مغربی طاقتیں ابتداء میں جمہوریت کی دستک سے خوش بہت ہوئیں اور انہوں نے اسے بہار کی آمد قرار دیاانہیںیقین تھا کہ اب آمرانہ اور استبدادی نظام جس کے عرب عادی ہوگئے تھے ختم ہوگا ، لیکن جب جمہوریت سے اسلام برآمدہو تو ان کی خوشیاں کافور ہوگئیں،وہ غم سے نڈھال ہوگئے انہوں نے محسوس کیا کہ اگر مصر اور شام دونوں جگہ اخوانی برسراقتدار آگئے تو اسرائیل کے وجود کے لئے سنگین خطرہ بن جائیں گے۔اسلامی جمہوریت کے خلاف سازش ہوئی اور اس سازش میں ان تمام مملکتوں کو شریک کرلیا گیا جنہیں اسلام کے جمہوری سیاسی نظام سے زیادہ قیصر وکسری کا شہنشاہی نظام زیادہ عزیزتھا۔
عرب دنیا میںآج سیاسی سطح پر وہی اسلامیت اور غیر اسلامیت کی کشمکش ہے جو خلافت راشدہ کے بعد شروع ہوئی تھی۔خلافت راشدہ کے بعدحکومت کی گاڑی اسلام کی پٹری سے اتر گئی تھی ۔اس کو ٹھیک کرنے کی جو کوششیں ہوئیں وہ کامیاب نہ ہوسکیں اور مسلمانوں کا خون بہت بہ گیا تھا۔خلافت راشدہ کے بعدنظام حکومت میں فرق ضرور آگیا تھا، حکومت کا اسلامی شورائی جمہوری معیار باقی نہیں رہا، لیکن شریعت کے قانون نافذ تھے اور فتوحات کا دائرہ بڑھتا جارہا تھا اس مسلسل پھیلتے ہوئے عالم اسلام کے لئے قانون اور علوم اسلامیہ کی تدوین کی فوری ضرورت تھی علماء حکومت کی اصلاح سے مایوس ہوکر اس ضروری کام میں مشغول ہوگئے اور پھر وہ علمی دینی ترقیاں سامنے آئیں جو آج تک سند کا درجہ رکھتی ہیں۔اگرچہ زیر زمیں حکومت کے نظام کو درست کرنے اور بدلنے کی کوششیں بھی جاری تھیں اور اہل علم اہل دین اور فقہاء کی ہمدردی بھی انہیں حاصل تھی تاہم یہ کوششیں کامیاب نہیں ہوسکیں۔
صدیاں گذر گئیں آخر میں ان مغربی طاقتوں کا آفتاب اقبال طلوع ہوا جن کے دلوں میں صلیبی جنگوں کا زخم ہرا تھا اور تمام عرب ملکوں میں جو ترکی کی خلافت سے آزاد ہوچکے تھے ان کے زیر نگیں آگئے تھے اس وقت مسلمانوں میں ایسے علماء اور اہل قلم سامنے آئے جنہوں نے اسلامی نظام حیات کا انکار کیا جامع ازہر کے ایک مشہور عالم تھے جن کا نام شیخ عبد الرازق تھا انہوں ایک کتاب لکھی ’’الاسلام ونظام الحکم‘‘ جس میں یہ ثابت کیا گیا تھا کہ اسلام بھی مسیحیت کی طرح عبادات کا دین ہے نہ کہ مکمل نظام حیات۔جامع ازہر نے جس کی حیثیت آج کے ’’ ہز ماسٹر وائس ‘‘ والے ازہرکی نہیں تھی ان کی سند ضبط کرلی۔اور جامع ازہر کی تاریخ میں یہ پہلا واقعہ تھا کہ کسی کی سند اور ڈگری منسوخ کردی گئی ہو ۔اس بربط فکر پر ساز چھیڑنے والے اور بھی اہل قلم مصرا ورشام میں پیدا ہوئے ان ملکوں میں زمام اقتدار جن لوگوں کے ہاتھ میں تھی وہ بھی اسی فکرکے حامل تھے ،مغرب کے پروردہ اور جدید تعلیم یافتہ ۔ اب بہت سے عرب ملکوں میں اسلام دفاعی پوزیشن میں تھا اور مسجدوں میں محصور، بے طاقت اور مجبور ۔ اس صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لئے بہت سے اہل قلم سامنے آئے اور بہت سی تنظیمیں وجود میں آئیں ۔جن میں سب سے طاقتور اور وسیع تر تنظیم الاخوان المسلمون کی تھی جس کے بانی حسن البناء تھے ۔اس کے بعد شرار بو لہبی سے چراغ مصطفوی کی کشمکش کی طویل داستا ن شروع ہوتی ہے جو ابھی تک جاری ہے ، فلسطین کو آزاد کرانے کا عزم رکھنے والی واحد تنظیم کو بھی دہشت گرد قرار دے دیا گیا ہے ۔ یہ امریکہ کا اقبال ہے کہ جو وہ چاہتا ہے عرب ملک وہی کرتے ہیں اور جو وہ بولتا ہے وہی زبان بولتے ہیں امریکہ کو اپنی بالا دستی کا زعم ہے۔ صدر ٹرمپ کے دست راست اور ایڈوائزر جنرل فلن اپنی کتاب دی فیلڈ آف رائٹ میں اسلام کے لئے کینسر کا لفظ استعمال کرچکے ہیں۔ افسوس کہ چراغ مصطفوی کی لو کترنے کے لئے اسلام اور حرم کا نام لینے والے ملک بھی سامنے آگئے ہیں ۔ سب سے زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ حسن البنا اور دیگر اخوانی قائدین اور مولانا مودودی، مولانا علی میاں ، عائض القرنی اور بہت سے اسلامی مفکرین کی تحریروں پر قدغن لگا دی گئی ہے۔ شہروں کے مکتبوں سے ان کی کتابیں ہٹادی گئی ہیں ،کیونکہ حکمرانوں کی مغرب سے متاثر قوت شامہ ان میں دہشت گردی کی بو محسوس کرتی ہے یا وہ اپنے مستقبل کے بارے میں اندیشہ ہائے دور دراز میں مبتلا ہوجاتے ہیں ، جل جلالہ خود سرطان میں مبتلا ہیں اور سلطانی خاک کا پیوند ہونے والی ہے ۔لیکن شیطان کے پھندے میں گرفتاراور فریب نفس کا شکار ہیں ۔ شیطان کا جال نہیں ہوتا تو ضرور ان کو اپنی غلطی کا احساس ہوجاتا ۔اور اس سے بھی زیادہ غمناک اور شرمناک بات یہ ہے کہ مسلم حکمرانوں کی جانب سے اس کھلی ہوئی لامذہبیت کی حمایت اور مدد پر علماء دین کی، جو وارثین انبیاء کہلاتے ہیں، غیرت اور حمیت ذرا بھی نہیں جاگتی ہے ان کا ضمیر بیدار نہیں ہوتا ہے ۔ہندوستان ہی کے اخبارات اٹھا کر دیکھئے تو ختم بخاری اور ختم خواجگان اور میلاد النبی اور وعظ وتذکیر کے جلسے ہر طرف منعقد ہوتے نظر آئیں گے۔ لیکن پورے پورے علاقے اور پورے پورے ملک میں ایساکوئی ایک صاحب عزیمت عالم نظر نہیں آئے گا جو مسلم حکمرانوں کے منافقانہ رویہ اور ان عرب ملکوں کے بعض ضمیر فروش علماء اور مفتیوں کی بے ضمیری اوربے دانشی پر احتجاج کرے،اف یہ سکوت مرگ ۔اللہ رے سنا ٹا آواز نہیں آتی ۔ صحافیوں کے قلم بھی بک چکے ہیں ۔ امیرمعاویہ نے جب اپنے بیٹے یزید کو ولی عہد بنایا تھا تو حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ نے سخت احتجاج کیا تھاآج اگر کوئی حکمراں اپنے بیٹے کو ولی عہد بنا تا ہے تو اہل قلم صحافی گلدستہ تہنیت پیش کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں ، لکھا جاتا ہے کہ ولی عہدی مبارک ہو، قلم سے بہاروں کوحکم دیا جاتا ہے کہ پھول برسائیں ، ستاروں کویہ حکم کہ چراغاں کریں ،ایسا نہیں ہے کہ علماء اور اہل قلم اور صحافیوں کا نقطہ نظر دوسرا ہے وہ گھر کی اور دوستوں کی خلوت کی نشستوں میں ان حکمرانوں کو برا کہیں گے اور ان کا مذاق اڑائیں گے ، لیکن سامنے آنے سے اور سچ بات کہنے سے اور کسی پلیٹ فارم سے حق کے اظہار سے گریز کریں گے۔امر بالمعروف اور نہی عن المنکر علماء کی پہلی ذمہ داری ہے ۔ اس دنیا کو قرآن میں متاع غرور کہا گیا ہے یہ متاع غرور ان کی عزیزتر متاع بن گئی ہے ، اللہ تعالیٰ کے ہاتھ بھی وہ اس کا سودا کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ ایک نفاق اور بزدلی اور بے ہمتی کا عالم ہے جو چھایا ہوا ہے ، ہر ایک کے ہاتھ میں کشکول گدائی ہے،ہر دست دست سوالی ہے اور الید السفلی ہے ۔ اب نہ کوئی مفکر اسلام ہے نہ کوئی مجدد اسلام ہے ،نہ کوئی معمار حر م ہے نہ کسی کے ہاتھ میں علم ہے ،نہ کہیں داروئے الم ہے ۔زمانہ کو انتظار اس شخصیت کاہے جو معمار قوم ہو جو حق فروش اور حق فراموش مسلم علماء اور قائدین اور اہل قلم کا مزاج بدل دے اور ان میں حق شناسی اور حق نیوشی اور حق گوئی کا کردار پیدا کردے ۔اے سوار اشہب دوراں بیا اے فروغ دیدہ امکاں بیا
بر صغیر میں فکر اسلامی کے آسمان پرمولانا مودودی اورمولانا ابو الحسن علی ندوی دو روشن ستاروں کے نام ہیں ان دونوں کے درمیان فکری مماثلتیں ہیں ، دونوں عالم اسلام کی دینی تحریک الاخوان المسلمون کے مداح اور قدرشناس ہیں،دونوں اسلام کو ایک مکمل نظام حیات سمجھنے والے ہیں۔ اس فرق کے ساتھ کہ مولانا مودودی شریعت کی ظاہری شکل اور نظام پرزیادہ فوکس ڈالتے ہیں اور مولانا علی میاں ایمانی اور داخلی کیفیات پر زیادہ زور دیتے ہیں۔مولانا مودودی کے مقابلہ میں مولانا علی میاں کا قلم محتاط بہت ہے ان کی سیکڑوں اردو عربی تصنیفات میں ایک جملہ بھی کہیں ایسا نہیں ملتا جو علماء کے لئے وجہ اعتراض ہو، خاص طور پر تاریخ میں اختلافات کے خارزار سے ان کا قلم اس طرح گذرتا ہے جیسے کوئی پل صراط پر سے کامیاب گذرے مولانا علی میاں کا یہ کمال دیکھنا ہو تو اسے المرتضی پڑھنی چا ہئے جو مشاجرات صحابہ کا عہد ہے اور جس میں صحابہ کے اختلافات کا بیان ہے یا حیات عبد الحی پڑھنی چاہئے جس میں شبلی اور مولانا عبد الحی کے اختلافات پر پورا باب موجود ہے اور مولانا عبد الحی مولانا علی میاں کے والدہیں یہاں مولانا علی میاں کے قلم کی خصوصیت آشکار ہوتی ہے۔ اس وقت عالم عربی میں عرب بہاریہ کے زیر عنوان جو انقلابات آئے ان کے پس پردہ مولانا مودودی اور مولانا علی میاں کے فکر کے بھی سائے ہیں اور شیخ علامہ یوسف القرضاوی نے تو یہاں کہہ دیا ہے کہ جہاں جہاں الربیع العربی کے تحت جو انقلاب آیااس کے پس پردہ مولانا علی میاں کی مفکرانہ کتاب ماذا خسر العالم بانحطاط ا لمسلمین اور اس طرح کی کچھ اور کتابوں کاہاتھ ہے ۔ہر جگہ اسلامی ذہن وفکر کے لوگ تھے جنہوں نے عرب ملکوں میں اپوزیشن کا رول ادا کیا تھا اور وہ آگے آگے تھے۔یہ بہت بڑی حقیقت ہے جسے لوگ کم جانتے ہیں ۔ مغربی طاقتیں ابتداء میں جمہوریت کی دستک سے خوش بہت ہوئیں اور انہوں نے اسے بہار کی آمد قرار دیاانہیںیقین تھا کہ اب آمرانہ اور استبدادی نظام جس کے عرب عادی ہوگئے تھے ختم ہوگا ، لیکن جب جمہوریت سے اسلام برآمدہو تو ان کی خوشیاں کافور ہوگئیں،وہ غم سے نڈھال ہوگئے انہوں نے محسوس کیا کہ اگر مصر اور شام دونوں جگہ اخوانی برسراقتدار آگئے تو اسرائیل کے وجود کے لئے سنگین خطرہ بن جائیں گے۔اسلامی جمہوریت کے خلاف سازش ہوئی اور اس سازش میں ان تمام مملکتوں کو شریک کرلیا گیا جنہیں اسلام کے جمہوری سیاسی نظام سے زیادہ قیصر وکسری کا شہنشاہی نظام زیادہ عزیزتھا۔
عرب دنیا میںآج سیاسی سطح پر وہی اسلامیت اور غیر اسلامیت کی کشمکش ہے جو خلافت راشدہ کے بعد شروع ہوئی تھی۔خلافت راشدہ کے بعدحکومت کی گاڑی اسلام کی پٹری سے اتر گئی تھی ۔اس کو ٹھیک کرنے کی جو کوششیں ہوئیں وہ کامیاب نہ ہوسکیں اور مسلمانوں کا خون بہت بہ گیا تھا۔خلافت راشدہ کے بعدنظام حکومت میں فرق ضرور آگیا تھا، حکومت کا اسلامی شورائی جمہوری معیار باقی نہیں رہا، لیکن شریعت کے قانون نافذ تھے اور فتوحات کا دائرہ بڑھتا جارہا تھا اس مسلسل پھیلتے ہوئے عالم اسلام کے لئے قانون اور علوم اسلامیہ کی تدوین کی فوری ضرورت تھی علماء حکومت کی اصلاح سے مایوس ہوکر اس ضروری کام میں مشغول ہوگئے اور پھر وہ علمی دینی ترقیاں سامنے آئیں جو آج تک سند کا درجہ رکھتی ہیں۔اگرچہ زیر زمیں حکومت کے نظام کو درست کرنے اور بدلنے کی کوششیں بھی جاری تھیں اور اہل علم اہل دین اور فقہاء کی ہمدردی بھی انہیں حاصل تھی تاہم یہ کوششیں کامیاب نہیں ہوسکیں۔
صدیاں گذر گئیں آخر میں ان مغربی طاقتوں کا آفتاب اقبال طلوع ہوا جن کے دلوں میں صلیبی جنگوں کا زخم ہرا تھا اور تمام عرب ملکوں میں جو ترکی کی خلافت سے آزاد ہوچکے تھے ان کے زیر نگیں آگئے تھے اس وقت مسلمانوں میں ایسے علماء اور اہل قلم سامنے آئے جنہوں نے اسلامی نظام حیات کا انکار کیا جامع ازہر کے ایک مشہور عالم تھے جن کا نام شیخ عبد الرازق تھا انہوں ایک کتاب لکھی ’’الاسلام ونظام الحکم‘‘ جس میں یہ ثابت کیا گیا تھا کہ اسلام بھی مسیحیت کی طرح عبادات کا دین ہے نہ کہ مکمل نظام حیات۔جامع ازہر نے جس کی حیثیت آج کے ’’ ہز ماسٹر وائس ‘‘ والے ازہرکی نہیں تھی ان کی سند ضبط کرلی۔اور جامع ازہر کی تاریخ میں یہ پہلا واقعہ تھا کہ کسی کی سند اور ڈگری منسوخ کردی گئی ہو ۔اس بربط فکر پر ساز چھیڑنے والے اور بھی اہل قلم مصرا ورشام میں پیدا ہوئے ان ملکوں میں زمام اقتدار جن لوگوں کے ہاتھ میں تھی وہ بھی اسی فکرکے حامل تھے ،مغرب کے پروردہ اور جدید تعلیم یافتہ ۔ اب بہت سے عرب ملکوں میں اسلام دفاعی پوزیشن میں تھا اور مسجدوں میں محصور، بے طاقت اور مجبور ۔ اس صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لئے بہت سے اہل قلم سامنے آئے اور بہت سی تنظیمیں وجود میں آئیں ۔جن میں سب سے طاقتور اور وسیع تر تنظیم الاخوان المسلمون کی تھی جس کے بانی حسن البناء تھے ۔اس کے بعد شرار بو لہبی سے چراغ مصطفوی کی کشمکش کی طویل داستا ن شروع ہوتی ہے جو ابھی تک جاری ہے ، فلسطین کو آزاد کرانے کا عزم رکھنے والی واحد تنظیم کو بھی دہشت گرد قرار دے دیا گیا ہے ۔ یہ امریکہ کا اقبال ہے کہ جو وہ چاہتا ہے عرب ملک وہی کرتے ہیں اور جو وہ بولتا ہے وہی زبان بولتے ہیں امریکہ کو اپنی بالا دستی کا زعم ہے۔ صدر ٹرمپ کے دست راست اور ایڈوائزر جنرل فلن اپنی کتاب دی فیلڈ آف رائٹ میں اسلام کے لئے کینسر کا لفظ استعمال کرچکے ہیں۔ افسوس کہ چراغ مصطفوی کی لو کترنے کے لئے اسلام اور حرم کا نام لینے والے ملک بھی سامنے آگئے ہیں ۔ سب سے زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ حسن البنا اور دیگر اخوانی قائدین اور مولانا مودودی، مولانا علی میاں ، عائض القرنی اور بہت سے اسلامی مفکرین کی تحریروں پر قدغن لگا دی گئی ہے۔ شہروں کے مکتبوں سے ان کی کتابیں ہٹادی گئی ہیں ،کیونکہ حکمرانوں کی مغرب سے متاثر قوت شامہ ان میں دہشت گردی کی بو محسوس کرتی ہے یا وہ اپنے مستقبل کے بارے میں اندیشہ ہائے دور دراز میں مبتلا ہوجاتے ہیں ، جل جلالہ خود سرطان میں مبتلا ہیں اور سلطانی خاک کا پیوند ہونے والی ہے ۔لیکن شیطان کے پھندے میں گرفتاراور فریب نفس کا شکار ہیں ۔ شیطان کا جال نہیں ہوتا تو ضرور ان کو اپنی غلطی کا احساس ہوجاتا ۔اور اس سے بھی زیادہ غمناک اور شرمناک بات یہ ہے کہ مسلم حکمرانوں کی جانب سے اس کھلی ہوئی لامذہبیت کی حمایت اور مدد پر علماء دین کی، جو وارثین انبیاء کہلاتے ہیں، غیرت اور حمیت ذرا بھی نہیں جاگتی ہے ان کا ضمیر بیدار نہیں ہوتا ہے ۔ہندوستان ہی کے اخبارات اٹھا کر دیکھئے تو ختم بخاری اور ختم خواجگان اور میلاد النبی اور وعظ وتذکیر کے جلسے ہر طرف منعقد ہوتے نظر آئیں گے۔ لیکن پورے پورے علاقے اور پورے پورے ملک میں ایساکوئی ایک صاحب عزیمت عالم نظر نہیں آئے گا جو مسلم حکمرانوں کے منافقانہ رویہ اور ان عرب ملکوں کے بعض ضمیر فروش علماء اور مفتیوں کی بے ضمیری اوربے دانشی پر احتجاج کرے،اف یہ سکوت مرگ ۔اللہ رے سنا ٹا آواز نہیں آتی ۔ صحافیوں کے قلم بھی بک چکے ہیں ۔ امیرمعاویہ نے جب اپنے بیٹے یزید کو ولی عہد بنایا تھا تو حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ نے سخت احتجاج کیا تھاآج اگر کوئی حکمراں اپنے بیٹے کو ولی عہد بنا تا ہے تو اہل قلم صحافی گلدستہ تہنیت پیش کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں ، لکھا جاتا ہے کہ ولی عہدی مبارک ہو، قلم سے بہاروں کوحکم دیا جاتا ہے کہ پھول برسائیں ، ستاروں کویہ حکم کہ چراغاں کریں ،ایسا نہیں ہے کہ علماء اور اہل قلم اور صحافیوں کا نقطہ نظر دوسرا ہے وہ گھر کی اور دوستوں کی خلوت کی نشستوں میں ان حکمرانوں کو برا کہیں گے اور ان کا مذاق اڑائیں گے ، لیکن سامنے آنے سے اور سچ بات کہنے سے اور کسی پلیٹ فارم سے حق کے اظہار سے گریز کریں گے۔امر بالمعروف اور نہی عن المنکر علماء کی پہلی ذمہ داری ہے ۔ اس دنیا کو قرآن میں متاع غرور کہا گیا ہے یہ متاع غرور ان کی عزیزتر متاع بن گئی ہے ، اللہ تعالیٰ کے ہاتھ بھی وہ اس کا سودا کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ ایک نفاق اور بزدلی اور بے ہمتی کا عالم ہے جو چھایا ہوا ہے ، ہر ایک کے ہاتھ میں کشکول گدائی ہے،ہر دست دست سوالی ہے اور الید السفلی ہے ۔ اب نہ کوئی مفکر اسلام ہے نہ کوئی مجدد اسلام ہے ،نہ کوئی معمار حر م ہے نہ کسی کے ہاتھ میں علم ہے ،نہ کہیں داروئے الم ہے ۔زمانہ کو انتظار اس شخصیت کاہے جو معمار قوم ہو جو حق فروش اور حق فراموش مسلم علماء اور قائدین اور اہل قلم کا مزاج بدل دے اور ان میں حق شناسی اور حق نیوشی اور حق گوئی کا کردار پیدا کردے ۔اے سوار اشہب دوراں بیا اے فروغ دیدہ امکاں بیا
No comments:
Post a Comment