Monday, May 24, 2021

سورة البقرة

درس نمبر:17 آیت: 21،22

حصہ دوم

 ...الُذِىْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرضَ فِرَاشًا وَّ السَّمَاءَ بِنَاءً وَ اَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَاَخرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزقًأ لَّكُمْ ج فَلَا تَجْعَلُوْأ للهِ اَندَادً وَّ اَنتُمْ تَعلَمُوْنَ.

'وہی تو ہے جس نے تمہارے لیے زمین کا فرش بچھایا، آسمان کی چھت بنائی، اوپر سے پانی برسایا اور اس کے ذریعے سے ہر طرح کی پیداوار نکال کر تمہارے لیے رزق بہم پہنچایا۔ پس جب تم یہ جانتے ہو تو دوسروں کو اس کا مد مقابل نہ ٹھہرا و۔'

امام رازی رح اس سے پچھلی آیت کے بارے میں لکھتے ہیں کہ اللہ تعالی نے آغاز سورہ سے لے کر ان دو آیات سے قبل تک تین گروہوں کا ذکر صیغہ غائب میں کیا۔ اب ان سب کو جمع کر کے ملک الملوک، سارے بادشاہوں کا بادشاہ ان سب سے یکجا مخاطب ہو کر ان کو مکلف بنا رہا ہے۔

سورہ فاتحہ کا آغاز اس طرح ہوا کہ بندوں کی اپنی زبان سے اللہ تعالی کی صفت کرائی گئی کہ حمد و ستائش اور شکر اس اللہ کا جو ساری کائنات اور سارے جہانوں کا رب ہے۔۔۔اور پھر یہ اقرار کرایا جس کی تکرار ہر مسلمان اپنی نمازوں میں کرتا ہے کہ 'اے سارے جہانوں کے رب! ہم صرف تیری عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں'

یہاں آیت نمبر 21 میں وہی رب خود سامنے آ کر سارے انسانوں سے مخاطِب ہو کر کہتا ہے کہ میں تمہارا اور آدم سے لے کر تمہارے آباء و اجداد تک ساری نسلوں کا پیدا کرنے والا ہوں۔ جب میں خالق ہوں تو اپنی مخلوق کا مالک بھی ہوں اور مالک ہوں تو اپنی مخلوق کا حاکِم بھی ہوں۔ مخلوق کا حاکِم کے ہر حکم کو بلا چون و چرا ماننا بندگی ہے۔ بندگی کی ایک صورت وہ عبادات ہیں جو نماز، روزہ اور حج و انفاق کی شکل میں ادا ہوتی ہیں۔ دوسری صورت وہ اطاعت ہے جو زندگی کے پورے دائرے میں بجا لانی ہے۔ اٹھنے بیٹھنے، کھانے پینے، سونے جاگنے، کمانے اور خرچ کرنے، ملنے جلنے اور معاشرتی تعلقات قائم کرنے، نجی اور اجتماعی زندگی کے اصول اور قاعدے بنانے، پارلیمنٹ سے قانون بنانے اور ایوان صدر و وزیر اعظم اور عسکری مراکز سے احکام جاری کرتے ہوئے، ازدواجی اور عائلی زندگی سے لے کر ریاستی اور حکومتی امور تک ہر جگہ جو اطاعت کرنی ہے وہ صرف اللہ کا حق ہے۔ یہ بھی عبادت ہے۔

نماز، روزہ، حج اور زکات وغیرہ عبادات مقصود بھی ہیں اور ذریعہ بھی۔ مقصود اس طرح کہ اللہ تعالی نے جن و اِنس کو پیدا ہی اپنی عبادت کے لیے کیا ہے۔ ذریعہ اس طرح کہ وہ عبادات بندے کی تعمیرِ سیرت اور اس کے تزکیہِ نفس اور اس کے اندر تقوی کا جوہر پیدا کرنے کا سبب بنتی ہیں۔ یہاں بھی عبادت کا ان دونوں پہلووں سے ذکر ہوا ہے:

 لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنِ

 یعنی تاکہ اس عمل عبادت سے تمہارے اندر تقوی کا جوہر پیدا اور پختہ ہو۔ ساری دنیاوی زندگی کو اس احتیاط سے گزارنا جیسے کوئی کانٹوں بھری راہ میں چلتے ہوئے پھونک پھونک کر قدم رکھتا ہو کہ کہیں کانٹے دامن سے الجھ نہ جائیں یا پاوں میں چب نہ جائیں تقوی ہے۔ قرآن پاک کی مدنی سورتوں میں جہاں اوامر و نواہی، جائز و ناجائز، حلال و حرام کے احکام اور انتباہات آئے ہیں ان کے آگے پیچھے تقوی کا ذكر ملتا ہے جس سے تقوی کے دائرہ کی وسعت کا اندازہ ہو جاتا ہے۔

یہاں رب اپنی ربوبیت کا احساس دلا کر تقوی کی ضرورت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے ارشاد فرما رہا ہے کہ اس رب کی عبادت کرو جس نے اس زمین کو تمہاری بود و باش کے لیے ہموار اور چپٹا بنایا۔ اگر یہ گیند کی طرح ہر جگہ گول ہوتی تو تمہارا اس کے اوپر ٹھہرنا ممکن نہ ہوتا۔

پھر تمہارے سروں کے اوپر آسمان کی چھت کھڑی کر دی۔ اس گنبدِ نیلی فام میں زمینی اور انسانی دنیا کے لیے اتنی بے پناہ حکمتیں ہیں جن کو شمار نہیں کیا جا سکتا لیکن ایک بڑی حکمت یہ ہے کہ جن بادلوں سے تمہارے لیے بارش برستی ہے ان بادلوں کو تم بالکل اپنے قریب سمجھتے ہو اور تم انہیں طبعی اور سائنسی پیمانوں سے ناپتے ہو لیکن تمہیں کیا معلوم کہ ان بادلوں کی تشکیل میں اس آسمان کا کا بھی کوئی رول ہے۔

اس رب کے پیدا کردہ سارے عوامل و عناصر ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔ بادل برسنے سے زمین کو نمی ملتی ہے اور نمى نباتات، پھل، سبزیاں اور اناج اور غلہ اگنے کے لیے ضروری ہے۔ آسمان سے برسنے والی بارش زمین کو وہ نمی فراہم کرتی ہے۔ اللہ کا یہ نظام ایسا ہے کہ ایک دانہ اگانے کے لیے سارے آسمانی اور زمینی عناصر فطرت غلاموں کی طرح بیک وقت متحرک ہو جاتے اور ایک دوسرے سے تعاون میں لگ جاتے ہیں تو دانہ اگتا اور تمہارا رزق پیدا ہوتا ہے۔

مویشیوں کا گوشت بھی تمہارا رزق ہے لیکن اسی مربوط نظام میں نباتات مویشیوں کی خوراک بنتے ہیں تو جانور پلتے ہیں۔ گویا نباتات جانوروں کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں اور جانور اور مویشی باربرداری اور گوشت کی صورت میں تمہارے خادم ہیں۔ تو سوچو کہ تمہیں کس کے لیے وقف ہونا ہے؟ تمہیں اللہ کی اطاعت و بندگی کے قابل رکھنے اور تمہارے جسم اور جان کا رشتہ قائم رکھنے کے لیے یہ ہوائیں، یہ موسم، یہ پانی اور یہ نباتات سب وقف ہیں تو تمہیں کس کے لیے وقف ہونا ہے؟ اس رب کے لیے جس نے زندگی کے یہ سارے سامان تمہارے لیے پیدا کیے۔

یہ حقیقت تم خوب سمجھتے ہو۔ اب جانتے بوجھتے اور سمجھ رکھتے ہوئے کسی کو اس رب کے مقابل نہ ٹھہراو اور شریک نہ بناو۔ نہ اپنے جیسے انسانوں کو، نہ مناظر فطرت میں سے سورج اور چاند تاروں اور پہاڑوں کو اور نہ اپنے ہاتھ سے مورتیاں اور بت بنا کر انہیں 'انداد' کا درجہ دے کر ان کی پرستش کرو۔ 'انداد' مثل يا نظير کو کہتے ہیں، یعنی اس کے parallel, equal, like مساوی، حریف اور شریک نہ بناو۔


No comments: