Wednesday, March 10, 2021

 اردو زبان اور اس کے مُحسن

منیر احمد خلیلی

اسلامی لٹریچر عربی کے بعد سب سے زیادہ اردو میں شائع ہوا۔ اس میدان میں اردو کا بلاشبہ دوسرا نمبر ہے۔ عربی قرآن و حدیث کی زبان ہونے کی وجہ سے ہماری محبوب زبان ہے۔ فصاحت کے اعتبار سے یہ واقعی دنیا کی سب سے بلند زبان ہے۔ لیکن جہاں تک اسلامی لٹریچر کا تعلق ہے اس کا اگر قدیم ذخيرہ اس کے دامن سے نکال دیا جائے تو عین ممکن ہے کہ پچھلے ستر اسّی سال میں طبع ہونے والے لٹریچر کی بنیاد پر اردو اس میدان میں پہلے نمبر پر شمار ہو۔ اردو کو یہ فخر حاصل ہے کہ اس میں تفہیمُ القران جیسی تحریکی روح سے سرشار تفسیر ہے۔ تدبّرِ قرآن اور معارفُ القران اور پیر کرم شاہ مرحوم کی ضیاءُ القران بھی جو تفہیمُ القران کے پیٹرن پر لکھی گئی عالمی تفسیری لٹریچر کا عظیم سرمایہ ہیں۔

 دیگر کوئی موضوع ایسا نہیں جس پر اردو میں اعلی پائے کی کتب نہ ہوں۔ مولانا مودودی رح کی 'الجہاد فی الاسلام' اپنے موضوع کا نادر نمونہ ہے۔ 'پردہ' اور 'سُود' کے مقابل بھی ابھی ایسی کم ہی کتاب آئی ہے۔ اس زبان کو مولانا ابوالحسن ندوی جیسے عالمی شہرت کے عالم بھی نصیب ہوئے۔ مولانا احمد رضا خان بریلوی اور مولانا اشرف علی تھانوی کی کتب بھی اپنے اپنے انداز میں اردو کا عظیم سرمایہ اور فکر کے عمدہ نمونے ہیں۔ جدید اردو نثر کی بنیاد تو غالب کے خطوط نے رکھی تھی۔ سر سید احمد خان نے اسے پہلی مرتبہ علمی اور فکری اور قومی و سماجی موضوعات پر برتا۔ علامہ شبلی نعمانی رح علی گڑھ تحریک میں سر سید کے ساتھیوں میں سے تھے لیکن بعد میں اس تحریک کے مزاج سے اختلاف کر کے الگ ہوئے تو خود ایک دبستان بن گئے۔ ان کے دو قلمی و علمی رفقاء سید سلیمان ندوی اور مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنے اپنے انداز میں اردو کے دامن کو مالا مال کر دیا۔

 مولانا آزاد کے اسلوب کے حوالے سے ایک قول بابائے اردو مولوی عبدالحق سے منسوب کیا جاتا ہے کہ مولانا آزاد نے اردو کو بہت نقصان پہنچایا۔ اس داغ کو سید ابوالاعلی مودودی رح کے سلیس اور دلکش کلاسیکی اسلوب تحریر میں وسیع لٹریچر نے دھو دیا۔ مولانا مودودی رح کا اپنا ایک خاص طرز تحریر تھا۔ ان کی کتب میں کم و بیش سارا اردو لغت محفوظ ہو گیا ہے۔

 اردو دنیا کے ہر حصے میں بولی جاتی ہے۔ ہندی میں گزشتہ ساٹھ ستر برسوں میں سنسکرت کے بھاری بھرکم الفاظ زبردستی ڈالے گئے ورنہ پہلے جو ہندی بولی اور لکھی جاتی تھی وہ اردو ہی کی ایک شکل تھی۔ بنگالی البتہ دنیا کی تیسری سب سے بڑی مادری زبان ہے۔ ٹیگور کے نوبل پرائز نے اسے ایک اور امتیاز بخش دیا تھا۔ اردو مادری زبان کی حیثیت سے بنگالی سے پیچھے ہے لیکن مجموعی طور پر بولی جانے والی زبان کی حیثیت سے اردو بنگالی پر فوقیت رکھتی۔ شاعرانہ مرتبے میں اقبال رح کا مقام ٹیگور سے بہت بلند تھا لیکن ادب میں اسلامی فکر کے کسی مسلمان ادیب و شاعر کو تعصب کی بنیاد پر نوبل پرائز سے نہیں نوازا گیا۔ مصر کے نجیب محفوظ کو اسلامی فکر کے معیار سے نہیں بلکہ ان کے لبرل خیالات کے حامل ایک ایسے ناول 'اولاد حارتنا' کی بنیاد پر نوبل پرائز ملا تھا جس پر علمائے الازھر نے اس کے اسلام سے ٹکراتے ہوئے خیالات کی وجہ سے پابندی لگا رکھی تھی۔

 پُر کشش اردو اسلوب میں مولانا عبدالماجد دریا آبادی بھی تذکرہ کے قابل ہیں۔ انہوں نے انگریزی میں قرآن کی تفسیر بھی لکھی۔ شبلی کے شاگرد خاص سید سلیمان ندوی کی طرح یہ بھی مولانا اشرف علی تھانوی کے حلقہ ارادت میں داخل ہو گئے تھے۔ اگر اردو کا خزانہ مالا مال کرنے والوں اور ان کی کتب کا شمار کریں تو اردو کے تفاخر کی بات بہت لمبی ہے۔

 

No comments: