Thursday, March 04, 2021

Reformation Never Ending Task

 اصلاح نہ ختم ہونے والا کام

 منیر احمد خلیلی

 اصلاح فرد کی ہو یا معاشرہ کی یا ریاست کی، اس کا کام کبھی ختم نہیں ہوتا۔ یہ ترجیحات کے حکیمانہ تعین کے ساتھ ایک مسلسل جاری رہنے والا کام ہے۔ بگاڑ کی قوتیں اگر تھک کر نہیں بیٹھتیں تو تعمیر و اصلاح کے لیے اٹھنے والی قوت کو بھی کبھی تھکنا نہیں چاہیے۔

 ہاں یہ ہوتا ہے کہ اس میں مسلسل کوتاہی کے نتیجے میں جب دھاگے کا گچھا الجھ جاتا ہے تو پھر اصلاح کرنے والے خود بھی الجھ جاتے ہیں اور یہ طے ہی نہیں کر پاتے کہ دھاگے کے گچھے کو کس طرف سے سلجھانا ہے۔ جب یہ تعین نہیں ہو پاتا تو اصل کام ختم ہو جاتا ہے اور سارے وسائل اور توانائیاں وہاں صرف ہونے لگتی ہیں جہاں ان کا دس پندرہ فیصد صرف ہونا چاہیے۔ دوسری پریشان کن بات یہ ہے کہ یہ تعین ہی نہیں ہو سکتا ہے کہ اصلاح حقیقت میں ہے کیا اور یہ کہاں سے شروع ہونی ہے۔

 بعض لوگوں پر بگاڑ اور فساد کی آندھیاں دیکھ کر مایوسی طاری ہو جاتی ہے اور وہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ اب اصلاح کی گنجائش باقی نہیں رہی ہے اور اس عمل کو ترک کر دیتے ہیں۔ اس معاملے میں ہمارے سامنے یونس علیہ السلام کی مثال ہے۔ آں حضرت قوم پر عذاب کا فیصلہ دیکھ کر شاید یہی سمجھ کر قوم کو اس کے حال پر چھوڑ کر نکل گئے تھے کہ اصلاح کا وقت ختم ہو گیا ہے۔ نتیجہ یہ ہوا تھا کہ قوم پر سے عذاب ٹل گیا تھا اور خود حضرت یونس علیہ السلام اللہ کی گرفت میں آ گئے تھے۔

 خدا کے عذاب کے وقت کا تعین کرنے والے ہم نہیں بلکہ وہ خود ہے۔ مکہ والوں سے زیادہ سرکش کون تھا اور ان سے زیادہ اسلام اور پیغمبر اسلام کو مٹانے کی کوشش کس نے کی تھی لیکن ان کی اصلاح کی مہم نہ اللہ کے نزدیک ختم ہونے والی تھی اور نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ترک کی تھی۔ ان میں سے جن کو مٹانا تھا وہ بدر کے معرکہ میں مٹائے گئے باقی سارے اہل مکہ کو فتح مکہ کے وقت عفو و درگزر کا سایہ فراہم کر دیا گیا تھا اور وہ ایمان کی دولت سے سرفراز ہوئے تھے۔

 ہم ایک طرح کی خوش فہمی میں مبتلا ہیں۔ سمجھتے ہیں کہ چونکہ ہمارے اپنے علاوہ سب دوزخی اور جہنمی ہیں اس لیے ہم انہیں غارت ہوتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں لیکن اللہ کے رسول کا حکم ہے کہ زندہ یا مردہ کسی کے جنتی یا دوزخی ہونے کا فتوی مت دو۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ایک شخص اپنی بدکاریوں کی وجہ سے جہنم سے بس ایک بالشت کے فاصلے پر رہ جائے گا اور عین اس وقت وہ اللہ کی رضا کا کوئی ایسا کام کر دے گا جو اس کی سیئات پر اس کے حسنات کو غالب کر دے گا اور اسے جنت میں بھیج دیا جائے گا۔ اسی طرح ایک شخص اپنی نیکو کاری میں جنت کے بالکل ایک بالشت کے فاصلے رہ جائے گا کہ اس سے کوئی ایسا عمل بد سرزد ہو جائے گا جس کی وجہ سے وہ جنت کو گویا چھوتا ہوا اس سے دور دھکیل کر جہنم میں جھونک دیا جائے گا۔

میں نے ابھی چند روز پہلے یہ لکھا تھا کہ ہم قضاة یعنی جج نہیں بلکہ دعاة یعنی دین کے داعی، اصلاح کار اور دعوت و تربیت کے مکلف ہیں۔

 یہ کام منافرت اور تعصبات سے نہیں بلکہ محبت اور قربت اور الدِّيْنُ النَّصِيْحَة کے تقاضے پورے کرنے سے ہونے کا ہے۔

No comments: